رئیس التحریر، رہبر ِ شریعت، آفتاب ِ طریقت
علامہ، الحاج، الحافظ

حضرتِ اعلٰی جنابقاضی عبدالدائم دائمؔمُد ظلہ العالی

(اللہ یجتَبِی اِلَیهِ مَن یشَاءُo [القرآن:(16): آیۃ:(97)])

(اللہ تعالیٰ اپنے لئے منتخب کر لیتا ہے جسے چاہتا ہے۔)

نام اور تخلص

آپ کے تخلص ”دائم“ پر ماہنامہ ”جام عرفاں“ کے ایک قاری نےسوال اُٹھایا کہ آپ تو عبدالدائم ہیں، یعنی دائم کے بندے، پھر خود دائم کیونکر ہو سکتے ہیں---؟ اس کے جواب میں آپ نے لکھا--- ”دائم بمعنی حقیقی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور بمعنی مجازی غیر پر بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے جنت کے بارے میں ارشاد ربانی ہے اُکُلُهَا دَائِمo (اس کے میوے دائم ہوں گے) اسی طرح نمازیوں کے بارے میں ارشاد ہے عَلیٰ صَلاَتِهِم دَائِمُونo جس طرح لفظ حَیّ بمعنی حقیقی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اَلحَیُّ القَیوم اور بمعنی مجازی ہر زندہ چیزپر بولا جاتا ہے، جیسے  یخرِجُ الحَیَّ مِنَ المَیتِo (نکالتا ہے زندہ کو بے جان سے) غرضیکہ دائم کے حقیقی معنی کے اعتبار سے میں اس کا بندہ ہوں اور مجازی معنی کے لحاظ سے تمنّا رکھتا ہوں کہ میرا ذکر اچھائی کے ساتھ دائم رہے۔“

والد ماجد

صدرالاولیاءحضرت معظم قاضی محمد صدرالدین رحمۃ اللہ علیہ، جنکی مفصل سوانح عمری حیات صدریہ کے نام سے بارہا چھپ چکی ہے۔

ولادت

19رجب المرجب 1366ھ ---- 8 جون 1947ء

بمقام

قصبہ درویش، جو مضافات ہری پورہزارہ میں ایک مشہور بستی ہے۔

تعلیم

ابتداءسے انتہاءتک تمام تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ درس نظامی کی تقریبًا ساری کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھیں۔ حتیٰ کہ عقائد، مناظرہ، ہیئت اور منطق وفلسفہ کی وہ بلند پایہ اور مشکل کتابیں جو، اب درس نظامی میں متروک ہوچکی ہیں اور آج کل کے بیشتر طالب علم ان کے ناموں سے بھی واقف نہیں ہیں، وہ بھی آپ نے سبقاً پڑھی ہیں اور ان پر مکمل عبور حاصل کیا ہے۔ مثلاً خیالی، رشیدیه، شرح چغمینی، میرقطبی، میرزاهد ملاجلال، میر زاهد رساله قطبیه، میر زاهد امورعامه، قاضی مبارک، حمدالله، صدرا اور  شمس بازغه   وغیرہ۔

سند فراغت

1383ھ 1964ء دارالعلوم نعمانیہ لاہور میں دورہ حدیث کے امتحان میں شرکت کی اور الشہادة العالمیہ کی سند جو ایم۔ اے کے مساوی ہے، خصوصی امتیاز سے حاصل کی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جب آپ دورہِ حدیث کے امتحان میں شریک ہوئے اس وقت تک آپ نے سوائے مشکوة شریف کے حدیث کی کوئی کتاب پڑھی ہی نہیں تھی، نہ ہی حضرت معظم نے آپ کو امتحان دینے کے لئے لاہور بھیجا تھا ؛ بلکہ اصل صورت حال یہ تھی کہ ان دنوں حضرت معظم کے ایک شاگرد مولانا محمد یوسف صاحب دارالعلوم نعمانیہ میں مدرس تھے۔ حضرت معظم نے آپ کومولینٰا کے پاس لاہور اس لئے بھیجا تھا کہ اس دفعہ امتحان کے طریق کار وغیرہ کا جائزہ لے لیں تاکہ آئندہ سال جب صحاح ستہ کا امتحان دینے کسی مدرسے میں جائیں تو طریق کار سے ناواقفیت کی بنا پر کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مگر وہاں جا کر آپ کا ارادہ امتحان دینے کا ہو گیا۔ مولانا محمد یوسف صاحب کی کوششوں سے انتظامیہ نے آپ کو شرکت کی اجازت دے دی اور یوں آپ نے صحاح ستہ پڑھے بغیر امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا۔ اس حیرت انگیز کامیابی میں آپ کی غیر معمولی ذہانت کا بھی یقینًا دخل ہے مگر آپ فرماتے ہیں کہ اس کا اصل سبب یہ تھا کہ مجھے حضرت معظم نے مشکوة شریف اتنے مفصل اور بھرپورطریقے سے پڑھائی تھی کہ وہی معلومات کافی ثابت ہوئیں اور میں اللہ کے فضل سے بآسانی یہ مرحلہ سر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

واضح رہے وہ زمانہ دارالعلوم نعمانیہ کی انتہائی ترقی و عروج کا دور تھا اور دور دراز سے طلباء وہاں تحصیل علم کے لئے آیا کرتے تھے۔

حفظ قرآن مجید

1969ءمیں پندرہ پارے محترم جناب قاری منہاج الدین صاحب سے اور پندرہ پارے محترم قاری فقیر محمد صاحب سے صرف چھ مہینے میں تجوید کے ساتھ یاد کئے اور تقریبًا 18سال تک مسلسل تراویح میں قرآن مجید سنایا۔ آج کل آپ کے صاحبزادے قاضی عابدالدائم عابدصاحب رمضان میں سناتے ہیں ؛جبکہ آپ صبح کے فرضوں میں دو یا تین رکوع تسلسل کے ساتھ پڑھتے ہیں اور سات آٹھ ماہ میں قرآن مجید ختم کر دیتے ہیں۔ ختم والی صبح پرتکلف ناشتے سے احباب کی تواضع کرتے ہیں۔

تدریس

دس بارہ سال تک آپ نے دارالعلوم ربانیہ میں درس نظامی کے تقریبًا ہر فن سے متعلق کتابیں پڑھائیں۔ اصول حدیث، نحو، منطق اور ادب و معانی آپ کے پسندیدہ علوم رہے ہیں۔ انداز بیاں اتنا صاف و شفاف اور واضح و آسان ہوتا تھا کہ غبی سے غبی طالب علم بھی بات کی تہہ تک پہنچ جاتا تھا اور بہت مسرور ہوتا تھا۔

تکمیل سلوک

ظاہری تعلیم کے ساتھ ساتھ حضرت معظم نے آپ کو باطنی علوم سے بھی خوب آراستہ کیا اور تزکیہ و تطہیر کے تمام مراحل سے اپنی نگرانی میں گذارا۔ اس سلسلے میں حضرت معظم نے آپ کے لئے یہ خصوصی اہتمام فرمایا کہ سلوک نقشبندی مجددی کے فوقانی مراقبات جن کا تعلق مختلف حقائق سے ہے، آپ کو عطا کرتے وقت ان حقائق کی مخصوص مناسبتوں کو بھی ملحوظ رکھا اور انہی کے حوالے سے آپ کو درجہ بدرجہ انتہا تک پہنچایا۔مثلاً حقیقت قرآن کا مراقبہ تب عنایت فرمایا جب آپ نے قرآن مجید یاد کرلیا اور فرمایا  ”اب حقیقت قرآن کے ساتھ تمہاری روحانی مناسبت پیدا ہوگئی ہے اس لئے آئندہ یہ مراقبہ کیا کرو!“ اسی طرح حج کے دوران ”حقیقت کعبہ“ کا مراقبہ، کعبہ شریف کے روبرو اور ”حقیقت ابراہیمیہ“ کا مراقبہ، مقام ابراہیم کے سامنے بٹھا کر کرایا۔ ”حقیقت احمدیہ“ ”حقیقت محمدیہ“ اور ”حقیقت الحقائق“ کا تعلق چونکہ سرور عالم سے ہے اس لئے یہ مراقبات  حضرت معظم نے آپ کو گنبد خضراءکے سائے میں کرائے۔

---- یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے۔

 شاید ہی کسی سالک کو اس کے شیخ نے اتنی بھرپور توجہ اور باریک بینی سے مقاماتِ سلوک طے کرائے ہوں!!!!

علمی اور روحانی تربیت مکمل ہوگئی تو حضرت معظم نے اپنی زندگی ہی میں امامت و خطابت اور مدرسہ و خانقاہ کی دیگر ذمہ داریاں آپ کو سونپ دیں اور عملاً اپنا جانشین نامزد کر دیا۔

سجاده نشین

آپ کے والد گرامی حضرت معظم کے وصال پر خاندان کے اکابر نے کہاکہ حضرت کی تدفین سے پہلے جانشین مقرر کرنا ضروری ہے کیونکہ صحابہ کرام نے جانِ دوعالمﷺ کے جانشین کا تقرر آپ کے دفن کرنے سے پہلے کیا تھا۔ اس فیصلے کے مطابق بتاریخ 19 ربیع الثانی1398ھ مطابق 29 مارچ 1978ءنماز ظہر کے بعد علماءو صلحاءکے ایک بڑے اجتماع میں آپ کی دستار بندی ہوئی اور پھر آپ کی اقتداءمیں سب نے حضرت معظم کی نماز جنازہ ادا کی۔

تصانیف

۱--- سیدالورٰی:- 3 جلدیں۔ سیرت النبیﷺ کے موضوع پر لکھی گئی یہ کتاب مقابلہ کتب سیرت منعقدہ 1998ءاسلام آباد میں اوّل آئی اور صدارتی ایوارڈ کی مستحق قرار پائی۔

۲--- بلاوا:- حرمین شریفین کا ایسا دلچسپ اور معلوماتی سفرنامہ کہ شروع کرنے کے بعد ختم کئے بغیر چین نہیں آتا۔

۳--- حیات صدریہ:- بزرگان دین کے سوانح تو ہر دور میں لکھے جاتے رہے ہیں مگر جس انداز میں آپ نے اپنے والد ماجد صدرالاولیاء حضرت معظم کے حالات زندگی قلمبند کئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔

۴--- حقیقت یا فسانہ؟:- کیا جانِ دوعالمﷺ پر جادو اثر انداز ہوا تھا ---؟ آپ کی تحقیق کے مطابق ایسا ہر گز نہیں ہوا تھا۔

۵--- سایہ ِ مصطفی:- کیا سرورِ کونین کے جسم اطہر کا سایہ نہ تھا؟

آپ نے واضح کیا ہے کہ اس موقف کے ثبوت کے لئے صحیح تو کیا، کوئی ضعیف سے ضعیف حدیث بھی موجود نہیں ہے، نہ ہی عقلاً ایسا ہونا ممکن ہے۔

۶--- رونمائیاں:- ماہنامہ ”جامِ عرفاں“ کے ادارئیے ”رونمائی“ کے لئے مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین، قصائد، غزلوں اور چند مرثیوں پر مشتمل ایک آراستہ گلدستہ۔

مقالات

۱---فتاوی رضویہ کا خطبہ:- اعلی حضرت مولینٰا احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ کے فتاوی کا عربی خطبہ فصاحت و بلاغت کا ایک شہہ پارہ ہے مگر اسکو سمجھنے کے لئے خاصی وسیع علمیت کی ضرورت ہے۔ اس مقالے میں آپ نے اس خطبے کی علمی و ادبی پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ جامعہ نظامیہ لاہور سے جدید انداز میں چھپنے والے فتاوی رضویہ کی آٹھویں جلد کے آغاز میں یہ مقالہ شامل ہے۔

۲--- کلام رضا اور صحابہ کی ثنا:- اعلی حضرت کے نعتیہ کلام میں جا بجا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح و ثنا کا جو خصوصی اہتمام ہے، اس مقالہ میں اس کی تشریح و توضیح کی گئی ہے۔ رضا اکیڈمی لاہور سے چھپ چکا ہے۔

۳--- ر ویت ہلال :- اس میں آپ نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ اختلافِ مطالع کا شرعی طور پر کوئی اعتبار نہیں ہے اور پورے عالم اسلام کو ایک ہی دن روزہ رکھنا اور عید منانا چاہئے۔ اسی تحقیق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلی نے اسکے حق میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کی اور مرکز سے پرزور سفارش کی کہ اس پر عمل درآمد کیا جائے۔

۴--- غضب الرحمۃ:- عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جانِ دوعالم کو غصہ سرے سے آتا ہی نہیں تھا۔ حالانکہ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ بہت سی باتیں اور حرکتیں ایسی تھیں جو رحمتِ مجسم کو بھی اتنا غضبناک کر دیتی تھیں کہ روئے زیبا احمریں ہو جایا کرتا تھا۔ غضب الرحمۃ میں ایسی ہی ناپسندیدہ حرکات کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ اہل ایمان ان سے گریز کریں اور خوشنودی مصطفی کا سامان کریں۔

۵--- مذ ہب یا گورکھ د ھند ا ! :- برطانیہ میں مقیم ایک مسلمان ڈاکٹر نے ہندو مذہب اختیار کر لیا اور اس کے فضائل و مناقب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام پر اعتراضات بھی کرنے لگا۔ اس بنا پر اس کے رشتہ دار سخت پریشان تھے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے رابطہ کیا اور رہنمائی کی درخواست کی۔ آپ نے اس مقالے میں ہندؤوں کی اپنی مقدس کتابوں کے حوالوں سے ہندو مذہب کا ایسا پول کھولا کہ ڈاکٹر صاحب اس کو پڑھتے ہی ہندوازم سے تائب ہو گئے اور دوبارہ سچے مسلمان ہو گئے۔

متفرقا ت

۱---گلبانگ مدینہ :- سلام رضا کے چند اشعار پر نہایت عام فہم اور اثر انگیز تضمینیں۔ ان تضمینوں کی خصوصیت یہ ہے کہ سب کی سب مسجد نبوی میں بیٹھ کر لکھی گئیں۔

۲--- التحقیق الصحیح :- جی پی فنڈ پر زکوٰة، حج اور سود کے مسائل پر یہ تحقیق درحقیقت آپ کے والد گرامی حضرت معظم کی بلند پایہ فقہی کاوش ہے، جس میں آپ نے مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم سے اختلاف کیا ہے اور اپنے موقف کو قوی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ یہ تحقیق اگرچہ حضرت معظم کی فکر رسا کا نتیجہ ہے ؛تاہم اسکی ترتیب و تدوین آپ ہی نے کی ہے۔ بعد میں وفاقی شرعی عدالت نے 1992ءمیں اسی کے مطابق فیصلہ دیا اور التحقیق الصحیح کے طویل اقتباسات کو اپنے فیصلے کا حصہ بنایا۔ یہ فتویٰ مع فیصلہ شرعی عدالت چھپ چکا ہے اور نیشنل لاءرپورٹر کا حصہ ہے۔

ملاحظہ فرمائیے (NL R 1993 SD 1 )

۳--- ملفوظاتِ دائم :- مختلف مجالس میں ہونے والی علمی و روحانی گفتگو سے انتخاب، جسے آپ کے خلیفہ مجاز جناب قاری جاوید اختر صاحب نے نہایت محنت اور ذمہ داری سے قلمبند کیا ہے۔

۴--- خطباتِ دائم :- (زیرِ ترتیب) عجیب بات ہے کہ آپ کی تقریر کا انداز، تحریر کی طرز سے یکسر مختلف ہے۔ جملوں کی ترتیب اور الفاظ کی نشست میں ایک عجیب پُر کشش سی تقدیم و تاخیر ہے۔ ان تقریروں کو کیسٹ سے کاغذ پر منتقل کرنے کی ذمہ داری بھی جناب قاری جاوید اختر صاحب نے سنبھالی ہوئی ہے اور کمال یہ کیا ہے کہ آپ نے جو جملہ جس ترتیب سے بولا ہے اسکو بعینہ اسی ترتیب سے کاغذ پر منتقل کر دیا ہے جسکی وجہ سے اسکو پڑھنے والا یوں محسوس کرتا ہے گویا وہ خود تقریر کی محفل میں موجود ہے اور اپنے کانوں سے آپ کا خطاب سن رہا ہے۔ دو خطبات ”ذکر الٰہی“ اور ” نعتِ مصطفی“ کے عنوان سے چھپ چکے ہیں۔ انشاءاللہ مزید بھی چھپتے رہیں گے۔

مزاح نگاری

انتہائی سنجیدہ علمی تحریروں کے ساتھ ساتھ آپ مزاح نگار بھی اعلیٰ درجے کے ہیں جس پر آپ کی مشہور کتاب ”بلاوا“ شاہد ہے جس میں سنجیدگی و ظرافت کا نہایت حسین امتزاج ہے۔ اسی طرح ”جن کا حملہ“ اور ”کٹی کی خریداری“ ایسے ظریفانہ مضامین ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔

شاعری

حمد، نعت، نظم، غزل، قصیدہ، مرثیہ وغیرہ تمام اصناف سخن میں آپ کی طبع موزوں ایسی ایسی جدت طرازیاں اور تازہ کاریاں کرتی ہے کہ ہر صاحب ذوق جھوم جھوم اُٹھتا ہے۔ نمونہ ِ کلام کے طور پر آپ کی ایک نعت آخر میں لکھی ہوئی ہے۔ قرآن و حدیث کے اقتباسات سے آراستہ ایسی البیلی نعت لکھنے کی سعادت بہت کم کسی کے حصے میں آتی ہے۔ بلاشبہ--- آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔

مصروفیات

امامت، خطابت، مطالعہ، تصنیف و تالیف اور سلوک نقشبندی کے سالکین کی تربیت و رہنمائی۔کئی سال تک آپ نے ماہنامہ”جامِ عرفاں“ کی ارادت کی ذمہ داری بھی نہایت خوش اسلوبی سے نباہی مگر اب --- نہ جانے کیوں---؟ اس سے دستکش ہو گئے ہیں۔

زبانیں اور بولیاں

عربی، فارسی، اردو، پشتو اور مقامی بولی ہندکو پر آپ کو نمایاں عبور ہے۔ ان زبانوں میں بول چال اور نظم و نثر پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو قدرت نصیب فرمائی ہے ؛جبکہ انگریزی، پنجابی اور سرائیکی پر جزوی دسترس حاصل ہے۔ یعنی سمجھنے اور بولنے کی حد تک۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سر چشمہ ِ فیوض و برکات ہستی کو عمر طویل عطا فرمائے اور ایک دنیا کو ان کے علوم و معارف سے فیضیاب فرمائے۔

 

آمین ثم آمین۔