تصنیف

حضرت علامہ قاضی عبدالدائم دائمؔ مدظلہ العالی
خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ، ہری پور ہزارہ

حَیاتِ صَدریہ

 

سوانح عمریاں تو آپ نے بہت سی پڑھی ہوں گی مگر ایسی انوکھی،البیلی داستانِ حیات شایدہی آپ کی نظروں سے گزری ہو۔بقول میرؔ

بزمِ عشّاق میں فرہاد بھی تھا مجنوں بھی

ہم آئے تو بڑھی رونقِ محفل کیا کیا

اہل ذوق قار ئین----چونکہ یہ کتاب ایک داستانِ مسلسل ہے اس لیے بھرپور لطف اور حظ اٹھانے کے یے ضروری ہے کہ آپ کتاب کو شروع سے پڑھیں ----یقین جانیے! ختم کیے بغیر آپ کو چین نہیں آئے گا۔
پسند آئے تو خلوص دل سے دعا کر دیجئےگا کہ -----بہت کچھ دیا جس نے دل سے دعا دی

پسند نہ آئے تو میری بے بضاعتی اور کم ما ئیگی کو مدِّنظر رکھتے ہوئے درگزر فرما دیجیے۔

طا لب دعا
قا ضی عبدالدائم دائمؔ


بیسوی صدی عیسوی کا ذہن تصّوف کے نام تک سے بدکتا ہے---- تصّوف کا کلمہ سُنتے ہی اس کے پردۂ خیال پر ایک خستہ حال، تارک الدُنیا، گو شہ نشین، چلّہ کش، زاہدخشک کی تصویر اُبھر آتی ہےاور وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر تو بہ توبہ کر اُٹھتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے تصوف تو انسان کی باطنی قوتوں کو بیدار کرنے کا نام ہے۔انسانی نقطۂ نظر میں انقلاب پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، صفائی قلب و ذہن کا سامان اور قوتوں کے لیے بمنزلۂ مہمیزہے، حضرت معظمؒ اسی حقیقت کو یوں واضح کرتے ہیں کہ ”پیری مُریدی ہمارے ہاں کلاہ و شجر سے نہیں بلکہ صحبت ِ شیخ اور اتباعِ سُنّتِ نبئ اکرمؐ سے عبارت سے ہے۔“

خاکپائے اولیائے نقشبندیہّ
مُحمّد شفیع صابرؔ