شہنشاہِ تصوف، آفتابِ ولایت، قطبِ زماں، غوثِ دوراں
علامه، الحاج، صدرالاولیاء

حضرت معظمقاضی محمد صدر الدینرحمة اللہ تعالیٰ علیہ

(مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیینَّهُ حَیاةً طَیبَةً وَلَنَجْزِینَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ یعْمَلُونَo   [القرآن:سورۃ النحل(16): آیۃ:(97)])

(ترجمہ:جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن (تو)ہم اسے دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے،اور (آخرت میں) یسے لوگوں کو اُن کےاجر، اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔ )

1902ءمیں رب کریم نے قاضی فیروز الدین رحمۃاللہ علیہ کو ایک فرزند دلبند سے نوازا جس کا نام قاضی محمد صدرالدین رکھا گیا۔ قاضی فیروز الدین کا یہ فرزند ارجمند بڑا ہو کر ”صدرالاولیاء“ اور ”حضرت معظم“ جیسے القاب کے ساتھ معروف ہؤا اور ہزاروں لوگوں کا مرکز عقیدت اور محبوب رہنما بنا۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ وہ ضعیف ہوگئے تو دیگر اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ علاقہ کے علماء سے آپ کی علمی تشنگی نہ بجھ سکی تو ہندوستان کی جانب رخت سفر باندھا اور طرح طرح کی مشکلات و پریشانیوں سے دو چار ہوتے اور علوم کی مختلف چشموں، نہروں سے فیضیاب ہوتے ہوئے بالآخر آپ علم کے دریائے ناپیدا کنار حضرت علامہ مولانا فضل حق رامپوری کی خدمت میں جاپہنچے۔ مولانا ان دنوں مدرسہ عالیہ رامپور کے پرنسپل تھے چنانچہ حضرت معظم بھی اسی مدرسہ میں داخل ہوگئے اور جی بھر کے اکتساب فیض کیا۔ مولانا آپ کی ذکاوت سے اتنے متاثر تھے کہ جس دن حضرت معظم سردردی وغیرہ کی وجہ سے حلقہ درس میں موجود نہ ہوتے، اس دن مولانا بھی چھٹی کر دیتے اور طلباء سے فرماتے --- ”قاضی کے بغیر پڑھانے کا کیا خاک مزہ آئے گا۔“---

حضرت معظم کی سندِ فراغت کا عکس

مدرسہ عالیہ رامپور سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ نے سناکہ مدرسہ احمد یہ بھوپال میں مولانا محی الدین صاحب علم ریاضی کے بہت بڑے علامہ ہیں اور کرہ واسطر لاب کے ماہر۔ چنانچہ اس فن میں کمال حاصل کرنے کے لئے آپ بھوپال چلے گئے۔ وہاں آپ نے ریاضی تکمیل کے علاوہ شیخ الحدیث مولانا بشیر احمد سے حدیث کی چند کتابیں بھی پڑھیں۔ مدرسہ والوں نے آپ کی غیر معمولی قابلیت دیکھ کر آپ کو مکمل سند دے دی۔

غرضیکہ جملہ علوم سے آراستہ ہوکر آپ واپس تشریف لائے اور علمی مشاغل کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ حیدر آباد دکن تشریف لے گئے اور وہاں مدرسہ نظامیہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ وہاں کے معتمد امور مذہبی اختر یار جنگ صاحب آپ کے بے حد مداح تھے اور کہا کرتے تھے کہ میرے پاس عرب و عجم کے فضلاء آتے ہیں مگر میں نے قاضی صاحب جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا، جس کو تمام علوم نوک زباں یاد ہوں۔

وہیں سے آپ پہلی مرتبہ حج کے لئے تشریف لے گئے اور حرمین شریفین کے علماء نے بھی آپ کی علمی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ حتی کہ سید محمد امین کتبی مکی جیسے عظیم فاضل، ادیب، شاعر اور متعدد کتابوں کے مصنف نے آپ کے آ گے زانوئے تلمذتہہ کر دیا۔

ذٰلِکَ فَضْلُ اللہ یُؤتِیہ مَن یشآء

علم ظاہر کی چوٹی سر کر لینےکے بعد آپ کو علم باطن کی غواصی کا شوق دامن گیر ہوا، تلاش و جستجو کے جانکاہمراحل سے گذرنے کے بعد بالآخر بخت نے یاوری کی اور آپ کی رسائی قیوم زمان حضرت خواجہ ابو السعد احمد خانؒ (بانی خانقاہ سراجیہ کندیاں ضلع میانوالی) کے دربارگہر بار میں ہوگئی۔ اس کو حضرت معظم ؒکی غیر معمولی استعداد کہہ لیں یا شیخ کامل کی نگاہ التفات و عنایت کہ آپ صرف ایک سال سات ماہ میں تمام منازل طے کر گئے اور خلعت خلافت و احسان سے سرفراز ہوکر واپس تشریف لائے۔

 کرامات آپ کی اس قدر ہیں کہ ان کے لئے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔ یوں بھی سلسلہ نقشبندیہ میں کشف و کرامات کو زیادہ اہمیت حاصل نہیں۔ ان کے نزدیک بڑی چیز دین پر استقامت ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ اَلاِسْتِقَامَۃُ خَیْرُ مِن اَلْفِ کَرَامَۃ (استقامت ہزار کرامتوں سے افضل ہے۔) اور استقامت میں حضرت معظمؒ کی مثال پیش کرنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے۔ 75/76سال کی عمر ہو، کم خورا کی اور ریاضت کی وجہ سے بدن بھی نحیف ولاغر ہو، پھر فالج کا حملہ بھی ہوچکا ہو اور دایاں پہلو پوری طرح کام نہ کرتا ہو ---- اس عالم میں بھی آپ کی یہ حیران کن استقامت سب کی دیکھی بھالی ہے کہ فالج کی اسی تکلیف کے دوران رمضان شریف میں آپ کو بخار ہوگیا ---- اس شدت کا بخار کہ اس کی حرارت اور حدت دور ہی سے محسوس ہوتی تھی ---- اس حالت میں بھی آپ نے تمام تراویح حافظ صاحب کے پیچھے کھڑے ہوکر پڑھیں، ایک رکعت بھی بیٹھ کر ادا نہیں فرمائی۔ 1977ء میں جب آپ پر دوبارہ فالج کا حملہ ہؤا تو آپ صاحب فراش ہوگئے۔ اس حملے کا اثر آپ کی زبان پر بھی ہؤا اور ہر قسم کی گفتگو بند ہوگئی، البتہ لا الہ الا اللہ آپ کی زبان پر آخر تک جاری رہا۔ ان دنوں اگر آپ کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے، تب بھی بآواز بلند لا الہ الا اللہ ہی پڑھتے۔ کسی بات کے اقرار اور انکار کی دونوں صورتوں میں لا الہ الا اللہ ہی کہا کرتے تھے، البتہ اقرار والا لہجہ انکار والے لہجہ سے مختلف ہوتا تھا۔ انہی دنوں رمضان المبارک کا مہینہ آگیا آپ بھی روزے رکھنے کے لئے تیار ہوگئے۔ ہم سب نے مل عرض کی کہ حضور!آپ بہت بیمار اور ضعیف ہیں اس لئے براہ کرم اس دفعہ روزے نہ رکھئے اور فدیہ ادا کر دیجئے! آپ نے ایک نگاہ غلط انداز ہم پر ڈالی اور انتہائی شدت سے انکار میں سر ہلاتے ہوئے فرمایا۔ ”لا الہ الا اللہ “---- اور حسب معمول پورے روزے رکھے۔ استقامت کی ایسی لازوال مثالیں کیا اس دور میں پیش کی جاسکتی ہیں؟؟؟؟؟   --- شاید نہیں ---

اِن ایام میں آپ پر زیادہ استغراق اور بیخودی کی کیفیت طاری رہتی کسی بھی دُنیا وی چیز کی طرف بالکل دھیان نہ دیتے اگر کو ئی گھر یلو مسئلہ آپ سے ذکر بھی کیا جاتا تو مسکراتے ہو ئے صرف کلمہ طیبہ پڑھ دیتے۔قاری محمد یو سف صاحب نے آپ کی ایسی ہی کیفیت کے متعلق ایک نظم لکھی جس کے دو شعر حسب حال ہیں۔

مر ض کی صورت میں در حقیقت پلائی حق نے شرابِ وحدت

عجیب مستی و بے خودی کا یہ حال تجھ کو عطا ہؤاہے

ہمیشہ رہتی ہے تجھ پہ طاری عجیب سی محویت کی حالت

فنائے عشق خُدا میں کیسا کمال تجھ کو عطا ہؤا ہے

كُلُّ مَنْ عَلَیهَا فانٍ کےتحت آخر وہ وقت بھی آ گیا جو ہر انسان پر آنا ہے---- 28 مارچ 1978ء بمطابق 18 ربیع الثانی 1398 ھ، منگل اور بدھ کی درمیانی شب کو ایک طرف آفتاب دنیا آفاق کی پنہائیوں میں غروب ہوا اور دوسری طرف اپنی زندگی کا ہر لمحہ عشق الہٰی اور حب مصطفی میں بسر کرنے والا رشد و ہدایت کا یہ بے مثال مہر درخشاں ”مَن کَانَ آخِرُ کَلامِہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ“کے مصداق کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ہزاروں سوگواروں کے جھرمٹ میں غروب ہوگیا۔--- اِنا اللہ وَاِنا اِلَیہِ رَاجِعُونْ

نمی یا بم ترا آقا! کجا ر فتی ؟ چرارفتی؟

بہجر تو دلم شد ریش وچشمم اشکبار آمد

سر بالیں بیا یکدم ، ببیں تو حال نزعم را

دو چشمم وا، جگر خستہ ، بدل ہم انتظار آمد

نمی بینم کسے راکو مرا ’’منَّا ‘‘ بفرماید

بشوق ایں ندایت ،خاک پایت بر مزار آمد

 

﴿ قارئینِ کرام :- واضح رہے کہ یہ حضرت معظم ؒ کے مختصر تعارفی حالات ہیں۔ حضرت معظم ؒ کی سیرتِ مطہرہ سے مکمل آگاہی کے لیےسجادہ نشین حضرت علامہ  قاضی عبدالدائم دائم مُد ظلہ العالی کی معرکہ آرا  تصنیف  حیات صدریہ  کا مطالعہ کیجئے﴾