تصنیف

ماہرِ علومِ شریعت، واقفِ رموزِ طریقت
حضرت معظم قاضی محمد صدرالدین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ


ترتیب جدید

حضرت علامہ قاضی عبدالدائم دائمؔ مدظلہ العالی
خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ، ہری پور ہزارہ

اَلتَّحْقِیْقُ الصَّحِیْح

 

حضرت معظم کے دامان عاطف سے وابستہ بعض احباب نے آپ سے جی پی فنڈ سے متعلق سوال پوچھے۔ آپ نے اس وقت تک جی پی فنڈ سے متعلقہ قوانین وضوابط کا مطالعہ نہیں فرمایا تھا اور استفتاء کرنے والوں نے بھی وضاحت سے بیان نہیں کیا تھا۔ محض سرسری معلومات فراہم کی تھیں اس لئے آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ جی پی فنڈ میں جو رقم جمع ہوتی ہے وہ چونکہ ملازم کے قبضہ اور ملکیت میں آنے سے پہلے ہی اس کی رضامندی کے بغیر جبراً کاٹ لی جاتی ہے اس لئے اس پر جو رقم حکومت بطور سود ادا کرتی ہے، وہ سود نہیں ہے اور اس کا لینا جائزہے۔ اسی طرح اس فنڈ میں جمع شدہ رقم پر نہ زکو ٰۃ فرض ہے،نہ اس سے حج فرض ہوتا ہے۔

چنانچہ آپ گلزار خاں صاحب کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں۔”روپیہ(جی پی فنڈ کے حساب کا ) جو گورنمنٹ تنخواہ سے بلا اختیار کاٹ کر اس پرسود دیتی ہے، یہ سود نہیں ہے۔ سود تب ہوگا جب روپیہ آپ کے قبضہ میں دے کر پھر آپ کی رضا سے عقد کر کے سود پر لیا جائے۔“ اور حاجی گل حسن صاحب کے نام ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں۔ ”جی پی فنڈ کی جمع رقم پر نہ زکو ٰۃ فرض ہے، نہ اس پر حج فرض ہے جب تک یہ رقم قبضہ میں نہ آجائے۔“

حضرت معظم کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی مسئلہ پر فتویٰ دینے کے بعد بھی اس پر مسلسل غور وفکر کرتے رہتے تھے اور اگر کسی مرحلہ پر بھی آپ پر یہ انکشاف ہوتا کہ سابقہ تحقیق صحیح نہیں تھی، تو اس سے بلا تامل رجوع فرمالیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے احباب کو مندرجہ بالا جوابات دینے کے بعد، حاجی گل حسن صاحب کو لکھا کہ جی پی فنڈ سے متعلقہ تمام قواعد وضوابط ارسال کریں، تاکہ ان کو سامنے رکھ کر مکمل تحقیق کی جائے اور مفصل جواب لکھا جائے۔ جب حاجی صاحب نے جی پی فنڈ کے قوانین بھیجے اور آپ نے بغور مطالعہ کرنے کے بعد فقہی تحقیق شروع کی، توآپ اس نتیجے پر پہنچے کہ سابقہ رائے صحیح نہیں تھی۔ صحیح بات یہ ہے۔ کہ جی پی فنڈ پر جو رقم حکومت بطور سود دیتی ہے، وہ بلاشبہ سود ہے اور اس کا لینا حرام ہے۔

قاضی عبد الدائم دائمؔ