حرمِ کعبہ میں بیٹھ کر لکھی گئی ایک حیرت انگیز نظم

مشاہداتِ حرم

مع توضیح و تشریح
از قلم: حضرت علامہ قاضی عبد الدائم دائمؔ مدظلہ العالی

گزشتہ سال اللہ تعالیٰ نے حضرت اعلیٰ کو عمرہ کی سعادت نصیب فرمائی۔ فالحمد للہ علی ذلک۔ اس سفر میں مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران آپ نے حرم شریف میں جو ایمان افروز مناظر دیکھے ان کو وہیں بیٹھ کر نظم کی صورت میں قلمبند کیا۔ یہ روح پرور نظم اور حضرت اعلیٰ ہی کے قلم سے اس کی مختصر توضیح اور اس میں مذکور مقامات کا پس منظر نذر قارئین ہے۔ اسے پڑھئے اور لطف اٹھائیے!

عرس معظم کے موقع پر اس نظم کو جناب محمد ظہیر اعوان نے نہایت خوبصورت آواز اور لے میں پڑھا تھا اور خوب داد پائی تھی، اسکے بعد برادرم قاضی واجد (بھائی) اور غلام اختر (شاندار فوٹوز اینڈ مووی میکرز) نے نہایت محنت اور شوق سے اشعار کو پسِ منظر سے آراستہ کیا ہے۔  پہلے آپ یہ ویڈیو دیکھئے، سنئے اور لطف اٹھائیے اور پھر نظم اور اسکی تشریح ملاحظہ فرمائیے!

پیرزادہ قاضی عابد الدائم عابدؔ

کیا دیکھا۔۔۔۔۔۔؟

 
  • مقدس
  • شہر
  • مکہ
  • میں
  • عجب
  • دلکش
  • سماں
  • دیکھا
  • ہجومِ
  • خلق
  • ہر
  • دم
  • جانبِ
  • کعبہ
  • رواں
  • دیکھا
  • خدا
  • کے
  • گھر
  • کا
  • جلوہ
  • جس
  • نے
  • پہلی
  • مرتبہ
  • دیکھا
  • ذرا
  • پوچھو
  • تو
  • اُس
  • سے،
  • ایسا
  • نظارہ
  • کہاں
  • دیکھا؟
  • سفید
  • و
  • خوش
  • نما
  • احرام
  • کا
  • جوڑا
  • جو
  • پہنے
  • تھے
  • اُنہیں
  • لَبَّیْکَ
  • اَللّٰہُمَّ
  • سے
  • رطب
  • اللّساں
  • دیکھا
  • لگے
  • سب
  • شوق
  • سے
  • پھیرے
  • لگانے
  • ، بن
  • کے
  • پروانے
  • مثالِ
  • شمع
  • بیت
  • ا للہ
  • کو
  • جب
  • ضوفشاں
  • دیکھا
.
  • ہے
  • بوسہ
  • سنگِ
  • اسود
  • کا
  • سعادت
  • ایسی
  • عالیشان
  • کہ
  • جس
  • کے
  • واسطے
  • بے
  • تاب
  • ہر
  • پیر
  • و
  • جواں
  • دیکھا
  • لپٹ
  • کر
  • ملتزم
  • سے
  • اور
  • درِ
  • کعبہ
  • کے
  • سائے
  • میں
  • بلکتا،
  • اشک
  • برساتا
  • ہجومِ
  • عاشقاں
  • دیکھا
  • تلے
  • میزابِ
  • رحمت
  • کے،
  • حطیم
  • کعبہ
  • کے
  • اندر
  • سبھی
  • کو
  • بخت
  • پر
  • نازاں،
  • نہایت
  • شادماں
  • دیکھا
  • مقامِ
  • پاک،
  • ابراہیم
  • ؑ نے
  • جس
  • پر
  • کھڑے
  • ہو
  • کر
  • بنایا
  • کعبہ
  • ، اُس
  • پر
  • ان
  • کے
  • پاؤں
  • کا
  • نشاں
  • دیکھا
  • مبارک
  • آبِ
  • زمزم
  • ، جس
  • کا
  • دنیا
  • میں
  • نہیں
  • ثانی
  • اُسے
  • پی
  • پی
  • کے
  • سیر
  • و
  • شاد
  • ہوتا
  • اک
  • جہاں
  • دیکھا
  • سجا
  • کر
  • اپنے
  • ہونٹوں
  • کو
  • دعاؤں،
  • التجاؤں
  • سے
  • صفا
  • ،
  • مروہ
  • میں
  • لوگوں
  • کو
  • رواں
  • دیکھا،
  • دواں
  • دیکھا
  • کوئی
  • ہو
  • نیک
  • بندہ،
  • یا
  • ہو
  • دائمؔ
  • سا
  • بڑا
  • عاصی
  • تنا
  • سر
  • پر
  • سبھی
  • کے
  • رحمتوں
  • کا
  • سائباں
  • دیکھا

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~

تشریح و توضیح

(۱)

 
  • مقدس
  • شہر
  • مکہ
  • میں
  • عجب
  • دلکش
  • سماں
  • دیکھا
  • ہجومِ
  • خلق
  • ہر
  • دم
  • جانبِ
  • کعبہ
  • رواں
  • دیکھا

بلاشبہ مکہ ایک مقدس شہر ہے۔ جو شہر اس اعزاز بے مثال سے بہرہ ور ہو کہ اللہ رب العلمین و رب العرش العظیم نے اس کے ایک سادہ سے گھر کو تعظیم و تکریم کے طور پر اپنا گھر قرار دے رکھا ہو، اس جیسا مقدس و معظم شہر بھلا اور کونسا ہوسکتا ہے!

اس شہر مقدس میں یہ دلکش سماں ہمہ وقت دکھائی دیتا ہے کہ ہر گلی کوچے سے، شب و روز کے ہر لمحے میں مخلوقات کا ایک ہجوم کعبہ کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ حرم کعبہ سے آپ خواہ کتنے ہی دور رہائش پذیر ہوں، آپ کو حرم کا راستہ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بس اُدھر جانے والوں میں شامل ہو جائیں، آپ خود بخود حرم میں پہنچ جائیں گے۔

حضرت ابراہیم ؑ جب کعبہ بنا چکے تو وحی نازل ہوئی

 اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَج (1) (لوگوں میں حج کا اعلان کرو).

ان ویران اور غیر آباد پہاڑیوں میں ابراہیم ؑ ، اسمعیل ؑ اور ہاجرؑ کے سوا تھا ہی کون----! (*)

دور دور تک آبادی کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا، اس لئے عرض کی---- ’’باری تعالیٰ! اس اعلان کو لوگوں تک پہنچانے کا کیا سامان ہوگا؟‘‘

اللہ پاک نے فرمایا ’’ابراہیم! اعلان کرنا تیرا کام ہے، لوگوں تک پہنچانے کا انتظام میں خود کروں گا۔‘‘

چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر اعلان کیا ---- ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے، اس لئے حج کے لئے چلے آؤ!‘‘
یہ اعلان نہ صرف یہ کہ دنیا میں موجود ہر فرد نے سنا؛ بلکہ عالم ارواح بھی اس سے گونج اٹھا اور سعادت مند روحیں اسی وقت بے ساختہ پکار اٹھیں لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْک۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس گھڑی جس روح نے جتنی دفعہ لبیک کہا، اتنی ہی بار اس کے نصیب میں حرم کی حاضری لکھ دی گئی۔ (2) سُبْحَانَ ا للہ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ ا للہ الْعَظِیْم۔

یہ اسی اعلان عام کا اثر ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے سے زائرین مکہ پہنچتے ہیں اور رات دن بے تابانہ جانب کعبہ رواں دواں رہتے ہیں اور جو ابھی تک نہیں پہنچ سکے وہ بصد حسرت و یاس بزبان حال کہہ رہے ہوتے ہیں ؎

  • بڑی
  • حسرت
  • ہے،
  • شامل
  • کاش!
  • میں
  • بھی
  • اس
  • میں
  • ہو
  • جاؤں
  • اکٹھا
  • تیرے
  • در
  • پر
  • جو
  • ہجوم
  • عاشقاں
  • ہو
  • گا

 * (واضح رہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی اہلیہ کا نام ہاجر ہے، یعنی آخر میں ’’ہ‘‘ نہیں ہے۔)

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~

(۲)

  • خدا
  • کے
  • گھر
  • کا
  • جلوہ
  • جس
  • نے
  • پہلی
  • مرتبہ
  • دیکھا
  • ذرا
  • پوچھو
  • تو
  • اُس
  • سے،
  • ایسا
  • نظارہ
  • کہاں
  • دیکھا؟

پہلی مرتبہ خدا کے گھر کا جلوہ دیکھنا بلاشبہ ایک بڑا اعزاز ہے اور اس سعادت سے بہرہ ور خوش نصیب کی مزید عزت افزائی کے لئے اس کو یہ خوشبخری بھی دی گئی ہے کہ جب پہلی نظر کعبے پر پڑے، اس وقت جو دعا بھی مانگی جائے، قبول ہوگی۔(3) لیکن اس گھڑی تو کوئی ایک ہی دعا مانگی جا سکتی ہے، جبکہ حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والے نے بیسیوں دعائیں کرنی ہوتی ہیں اور اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ہر دعا قبول ہو۔ پھر وہ کیا کرے----؟ اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے پیش نظر علماء نے فرمایا ہے کہ وہ ایک ہی دعا مانگے لیکن اس کے لئے ایسے الفاظ کا انتخاب کرے کہ بعد میں کی جانے والی تمام دعاؤں کی منظوری یقینی ہو جائے۔ مثلاً وہ یوں کہے، یارب العالمین! اس سفر کے دوران میں جو بھی دعا کروں، وہ قبول فرما لینا۔ یہ دعا قبول ہوگئی تو سمجھو سب دعائیں قبول ہوگئیں۔ فالحمد للہ علی ذلک۔

کوئی شخص اگر ایسا کر سکے تو بہت اچھی بات ہے، لیکن عام طور پر اس نشاط انگیز لمحے میں نہ یہ دعا یاد رہتی ہے، نہ کوئی اور التجا زبان پر آتی ہے، کیونکہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی اس کا حسن و جمال اور ہیبت و جلال بندے کو گھیر لیتا ہے اور اس سرور آمیز دیدار کی لذت میں انسان ایسا کھو جاتا ہے کہ اس کو کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ ایک عجیب سی بے خودی اور وارفتگی کے عالم میں بس کعبے کو تکے جاتا ہے، تکے جاتا ہے اور آنسو بہائے جاتا ہے---- لبالب آنکھوں سے برستے ، ٹپاٹپ آنسو! ---- ایسے میں دعاؤں التجاؤں کا بھلا کس کو ہوش رہتا ہے!؟

جو خوش بخت اس روح پرور اور جانفزا مرحلے سے گزرا ہو---- ذرا پوچھو تو اس سے ، ایسا نظارہ کہاں دیکھا؟

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~

(۳)

  • سفید
  • و
  • خوش
  • نما
  • احرام
  • کا
  • جوڑا
  • جو
  • پہنے
  • تھے
  • اُنہیں
  • لَبَّیْکَ
  • اَللّٰہُمَّ
  • سے
  • رطب
  • اللّساں
  • دیکھا

عجیب لباس ہے یہ احرام بھی----! ساری دنیا کے لباسوں سے انوکھا اور نرالا، سفید، براق، صاف، شفاف، اجلا اجلا اور نکھرا نکھرا۔

جب آدمی احرام کا یہ سفید و خوشنما جوڑا پہن لیتا ہے تو اس کے لبوں پر بے ساختہ بارگاہ الٰہی میں حاضری کا ترانہ مچلنے لگتا ہے اور وہ لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ سے رطب اللسان ہو جاتا ہے۔

عام لوگوں کی زبانیں تو اس پاکیزہ نغمے کے ساتھ بآسانی تر ہو جاتی ہے لیکن جن کے دلوں میں خشیت الٰہی رچی ہوتی ہے، ان کے لئے یہ کلمات زبان پر لانا بہت ہی مشکل اور دشوار ہوتا ہے۔

امام زین العابدینؓ نے جب احرام باندھا تو چہرہ زرد ہوگیا اور بدن پر کپکپی طاری ہوگئی جس کی وجہ سے لَبَّیْکَ نہ کہہ سکے، ایک خادم نے عرض کی ”حضور! آپ نے احرام باندھنے کے بعد لَبَّیْکَ نہیں کہا!“ فرمایا ”مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اس کے جواب میں لَا لَبَّیْکَ نہ کہہ دیا جائے“، یعنی تیری حاضری قبول نہیں ہے۔اس کے بعد بڑی مشکل سے لَبَّیْکَ کہا تو غشی طاری ہوگئی اور اونٹنی سے گر پڑے۔ (4)

ایسی کیفیت کس کی ہوتی ہے----؟ کروڑوں میں کسی ایک کی۔ اگر کسی خوش بخت پر یہ کیفیت طاری ہو جائے تو پھر لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ سے رطب اللسان ہونے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔

امام زین العابدینؓ تو اپنی بے انتہا قوت برداشت کی بنا پر اس مرحلے سے کسی نہ کسی طرح گزر ہی گئے مگر مولانا زکریاؒ نے ’’فضائل حج و زیارت‘‘ میں ایک ایسے عاشق زارکا قصہ بھی بیان کیا ہے جس پر یہ کیفیت طاری ہوئی تو وہ جان ہی سے گزر گیا۔

ابوعبداللہ جلا کہتے ہیں کہ میں ذوالحلیفہ (میقات اہل مدینہ) میں تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان نے احرام باندھنے کا ارادہ کیا اور وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ اے میرے رب! میں اس بات سے بہت ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ میں لَبَّیْکَ کہوں اور تو آگے سے کہدے لَا لَبَّیْکَ، یعنی تیری حاضری منظور نہیں۔ آخر ہمت کرکے بمشکل لَبَّیْکَ کہا اور اس کے ساتھ ہی اس کی روح پرواز کر گئی۔ (5)

اللہ پاک اس عاشق زار کے درجات بلند فرمائے اور اس کو مقامات عالیہ نصیب فرمائے، آمین۔

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~

(۴)

  • لگے
  • سب
  • شوق
  • سے
  • پھیرے
  • لگانے
  • ، بن
  • کے
  • پروانے
  • مثالِ
  • شمع
  • بیت
  • ا للہ
  • کو
  • جب
  • ضوفشاں
  • دیکھا

کعبہ شریف کے گرد شوق و محبت سے پھیرے لگانے کو طواف کہا جاتا ہے۔ اس میں صرف چند ہی دعائیں مسنون ہیں، ہر جگہ کی علیحدہ دعائیں، جو بعض کتابچوں میں لکھی ہوتی ہیں، سنت سے ثابت نہیں ہیں۔ دراصل بیت اللہ کے گرد دیوانہ وار اور بے تابانہ گھومنا ہی سب سے بڑی عبادت ہے اور یہ ایسی عبادت و سعادت ہے جو صرف مکہ مکرمہ میں میسر آتی ہے۔ نماز، تلاوت، تسبیح، تہلیل اور دیگر عبادات تو کہیں بھی کی جاسکتی ہیں مگر طواف صرف کعبہ شریف کے گرد گھوم کر ہی کیا جا سکتا ہے اور اس میں تصور یہ کارفرما ہے کہ کعبہ کی مثال، شمع فروزاں جیسی ہے اور طواف کرنے والے، پروانے ہیں جو اس شمع الٰہی کے گرد گھوم رہے ہیں۔ عشق و دیوانگی اور سپردگی و پروانگی کا یہ تصور جس قدر مستحکم و مستحضر ہوگا، طواف میں اتنا ہی لطف اور مزا آئے گا اور شمع تاباں کے انوارو تجلیات سے پروانوں کے دل وجاں صحیح طور پر منور و درخشاں ہوں گے۔

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~

(۵)

 
  • ہے
  • بوسہ
  • سنگِ
  • اسود
  • کا
  • سعادت
  • ایسی
  • عالیشان
  • کہ
  • جس
  • کے
  • واسطے
  • بے
  • تاب
  • ہر
  • پیر
  • و
  • جواں
  • دیکھا

سنگ اسود، یعنی حجر اسود کو بوسہ دینا عالی شان سعادت اس لئے ہے کہ جانِ دو عالمﷺ کے فرمان کے مطابق جو بھی صدق و اخلاص سے اس کوبوسہ دے گا، قیامت کے دن یہ پتھر اس کے حق میں گواہی دے گا کہ اس شخص نے مجھے چوما تھا۔ (6) اور اس سے بھی بڑی بات، بڑا اعزاز----جی ہاں، بہت ہی بڑی بات اور بہت ہی بڑا اعزاز کہ جانِ دو عالمﷺ نے فرمایا ----’’حجر اسود اللہ کا دایاں ہاتھ ہے جس کے ذریعے وہ بندوں سے مصافحہ کرتا ہے۔‘‘ (7)

اللہ اکبر! جس بوسے کے صدقے ہم گنہگاروں کو اپنے رحمٰن و رحیم رب سے مصافحہ کرنے اور اس کے دست شفقت و عنایت کو چومنے کی سعادت حاصل ہوتی ہو، اس کے لئے ہر بوڑھا اور جوان کیوں نہ بے تاب و بے قرار ہوگا۔؟

اعلیٰ حضرتؒ نے ایک شعر میں آنکھ کی پتلی کی طرح حجر اسود کے لئے بھی پتلی ثابت کی ہے اور اسے جانِ دو عالمﷺ کی تجلیات کا عکس قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں

 
  • کعبہ
  • بھی
  • ہے
  • انہی
  • کی
  • تجلی
  • کا
  • ایک
  • ظل
  • روشن
  • انہی
  • کے
  • عکس
  • سے
  • پتلی
  • حجر
  • کی
  • ہے

اگر حجر اسود کو غور سے دیکھیں تو وہ آپ کو آنکھ سے مشابہہ نظر آئے گا اور آنکھ میں پتلی توہوتی ہی ہے، اس لئے فرمایا، روشن انہی کے عکس سے پتلی حجر کی ہے۔

تجلیات مصطفی ؐسے روشن یہ پتھر کہاں سے آیا ----؟ اسے کون لایا----؟ اور کیوں لایا----؟ تو روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم ؑ بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے اور انہیں وحی کے ذریعے بتایا گیا کہ اس گھر کے گرد گھوم کر طواف کرنا ہے تو انہیں خیال آیا کہ اس صورت میں کوئی ایسی نشانی ہونی چاہئے جسے کعبہ کے بیرونی کونے میں نصب کیا جائے تاکہ اسے دیکھ کر وہاں سے لوگ طواف کا آغاز کر سکیں۔ چنانچہ بارگاہ الٰہی میں عرض کی کہ آغاز طواف کی علامت کے طور پر کعبہ میں نصب کرنے کے لئے کوئی چیز عطا فرمائی جائے۔

چنانچہ جبریل امین یہ پتھر لائے اور جانِ دو عالم ﷺ نے فرمایا ----”حجر اسود جب جنت سے نازل ہؤا تو دودھ سے زیادہ سفید تھا، بنی آدم کے گناہوں نے اسے کالا کر دیا ہے“۔ (8) یعنی گناہگاروں کے ہاتھ اس کو لگتے رہے اور وہ آلودہ ہوتا رہا، یہاں تک کہ سیاہ ہوگیا۔

نبوت کا اعلان کرنے کے بعد تو ہر چیز جان دو عالم ﷺ کو سلام کیا کرتی تھی مگر حجر اسود کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اعلان نبوت سے پہلے بھی سلام کے نذارنے پیش کرتا رہتا تھا۔ اسی بات کو جان دو عالم ﷺ نے اشارتًا یوں بیان فرمایا کہ میں اُس پتھر کو اچھی طرح جانتا ہوں جو وحی نازل ہونے سے پہلے بھی مجھے مکہ میں سلام کیا کرتا تھا۔(9) اکثر محدثین کے نزدیک ’’اس پتھر‘‘ سے مراد حجر اسود ہے۔

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~

(۸)

  • لپٹ
  • کر
  • ملتزم
  • سے
  • اور
  • درِ
  • کعبہ
  • کے
  • سائے
  • میں
  • بلکتا،
  • اشک
  • برساتا
  • ہجومِ
  • عاشقاں
  • دیکھا

’’ملتزم‘‘ کے معنی ہیں چمٹنے کی جگہ۔ حجراسود سے باب کعبہ، یعنی کعبہ شریف کے دروازے تک جو جگہ ہے، یہ ملتزم کہلاتی ہے۔ اس کے ساتھ لپٹنا اور سینے کو اس کے ساتھ لگانا اتنا پسندیدہ اور مرغوب عمل ہے کہ جانِ دو عالم ﷺ نے فرمایا ’’میں نے بارہا جبریل امین کو دیکھا ہے کہ وہ یہاں کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور دعا مانگ رہے ہیں کہ اے قدرت والے! اے عظمت والے! مجھ پر جو نعمتیں تو نے کر رکھی ہیں انہیں مجھ سے زائل نہ کرنا۔‘‘ (10)

جبریل امین جیسا مقرب اور گناہوں سے مکمل طور پر پاک فرشتہ کعبہ کے جس حصے سے لپٹنے اور چمٹنے کے لئے سدرۃ المنتہیٰ سے اتر آتا ہو، اس مقام کی عظمت و رفعت کا بھلا کون اندازہ کر سکتا ہے!

اس سے متصل باب کعبہ ہے ---- ساری کائنات کے خالق و مالک بادشاہ کے گھر کا دروازہ۔ ایک عام قسم کے سخی شخص کے دروازے پر بھی اگر کوئی سائل صدا لگائے تو اس کے کاسے میں کچھ نہ کچھ ڈال دیا جاتا ہے، پھراکرم الاکر مین، یعنی تمام سخیوں سے زیادہ سخی شہنشاہ کے در پر جو عاشق سوالی بلک بلک کر مانگ رہا ہو اور اشکوں کے بے حد و حساب موتی لٹا رہا ہو اس کے دل میں مچلنے والی ہر تمنا اور لب پر آنے والی ہر دعا بھلا کیونکر نہ قبول ہوگی!؟

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~

(۶)

  • تلے
  • میزابِ
  • رحمت
  • کے،
  • حطیم
  • کعبہ
  • کے
  • اندر
  • سبھی
  • کو
  • بخت
  • پر
  • نازاں،
  • نہایت
  • شادماں
  • دیکھا

میزاب عربی میں پرنالے کو کہتے ہیں اور جس خوبصورت سنہری پرنالے سے گزر کر بارش کا پانی حطیم کے اندر گرتا ہے اسے میزاب رحمت کہا جاتا ہے۔ جو شخص اس کے نیچے کھڑا ہوتا ہے وہ گویا جنت کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے۔ اسی لئے حضرت عثمانؓ نے ایک دفعہ دیر تک میزاب کے نیچے دعا میں مصروف رہنے کے بعد ساتھیوں سے کہا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا تھا۔ حضرت عطاءؒ سے یہ بھی روایت ہے کہ جو شخص میزاب کے نیچے دعا مانگے اسکی دعا قبول ہوتی ہے اور وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اس دن تھا جب ماں نے اسکو جنا تھا۔(11)

حطیم کے معنی ہیں جدا کیا گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جو کعبہ بنایا تھا وہ چوکور نہیں؛ بلکہ مستطیل شکل کا تھا اور حطیم اس کا حصہ تھا۔ بعد میں مکہ والوں نے جب کعبہ کی تعمیر نو کی تویہ حصہ اس سے جدا کر دیا اور کعبہ کو چوکور بنا دیا۔ (ایسا کیوں کیا؟ اس کی تفصیل کے لئے ’’بلاوا‘‘کا مطالعہ کیجئے.) بہرحال یہ ہے کعبہ کا ہی حصہ، اس لئے اس میں داخل ہونا اور عبادت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کعبہ شریف کے اندر داخل ہوکر عبادت کرنا ۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میں کعبہ کے اندر نماز پڑھنا چاہتی ہوں تو آپ نے مجھے حطیم میں لاکر کھڑا کر دیا اور فرمایا ----’’جب بھی کعبہ میں نماز پڑھنے کو جی چاہے تو یہاں آکر پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ کعبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔‘‘(12)

یہ حصہ پوری طرح چوکور نہیں ہے؛ بلکہ گولائی نما ہے----جیسے ماں کی گود ہوتی ہے----اس لئے اعلیٰ حضرتؒ نے فرمایا

  • مہرِ
  • مادر
  • کا
  • مزا
  • دیتی
  • ہے
  • آغوش
  • حطیم

اب جو شخص جنت کے دروازے پر کھڑا ہو اور تمام گناہوں سے پاک ہونے کا مژدہ پا رہا ہو، یا کعبہ ہی ایک ٹکڑے حطیم کی آغوش میں بیٹھا ہو اور مہرِ مادر کے مزے لوٹ رہا ہو، اس سے زیادہ اپنے بخت پر نازاں اور شادماں کون ہوسکتا ہے؟

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~

(۷)

 
  • مقامِ
  • پاک،
  • ابراہیم
  • ؑ نے
  • جس
  • پر
  • کھڑے
  • ہو
  • کر
  • بنایا
  • کعبہ
  • ، اُس
  • پر
  • ان
  • کے
  • پاؤں
  • کا
  • نشاں
  • دیکھا

جس پتھر کو مقام ابراہیم کہا جاتا ہے اس کے بارے میں جانِ دو عالمﷺ نے فرمایا کہ وہ درحقیقت جنت سے لایا گیا ایک یاقوت ہے۔

اس کے اوپر معجزانہ طور پر حضرت ابراہیم ؑ کے پاؤں کے نشانات ثبت ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم ؑ نے کعبہ بنایا تھا اور ایک روایت کے مطابق جب آپ کو حج کے اعلان کا حکم دیا گیا تو اس پر چڑھ کر آپ نے اعلان فرمایا تھا۔ دونوں روایتوں میں درحقیقت کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس پر کعبہ بھی بنایا ہو اور بعد میں اسی پر کھڑے ہوکر اعلان بھی فرمایا ہو۔ بہرحال حضرت ابراہیم ؑ کے معجزے کا حامل یہ مقام انتہائی متبرک اور پاک ہے----اتنا متبرک کہ طواف کے اختتام پر جب تک اس کو سامنے رکھ کر دو رکعت نماز نہ پڑھ لی جائے، طواف ہی مکمل نہیں ہوتا۔

اسی سلسلے میں احادیث کے اندر ایک دلچسپ واقعہ مذکور ہے، کہ ابتداء اسلام میں طواف کے بعد دوگانہ پڑھنے کا معمول نہیں تھا۔ غالباً حجۃ الوداع میں حضرت عمرؓ نے بارگاہ نبویﷺ میں عرض کی----’’یارسول اللہ! طواف کے اختتام پر ہم مقام ابراہیم کے پاس نماز نہ پڑھ لیا کریں؟ چونکہ اس وقت تک اس بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہؤا تھا اس لئے جانِ دو عالمﷺ نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہے۔ تھوڑی دیر بعد جانِ دو عالم ﷺ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی اور صحابہ کرام نے آپ کے گرد چادر تان دی تاکہ آپ کی خلوت میں فرق نہ پڑے۔ وحی کا نزول ختم ہوا تو جانِ دو عالمﷺ نے حضرت عمر ؓسے کہا---- ’’ابو حفص! (حضرت عمر کی کنیت) تیری رائے کے مطابق وحی نازل ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔‘‘

حضرت عمرؓ نے عرض کی---- ’’آپ پر میرے ماں باپ قربان! یہ تیسری بار ہے کہ اللہ پاک نے میرے ساتھ موافقت فرمائی ہے اور میری رائے کو پسند کیا ہے۔‘‘(13)

اس کے بعد دو گانۂ طواف پڑھنا لازمی قرار دے دیا گیا۔

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~

(۹)

  • مبارک
  • آبِ
  • زمزم
  • ، جس
  • کا
  • دنیا
  • میں
  • نہیں
  • ثانی
  • اُسے
  • پی
  • پی
  • کے
  • سیر
  • و
  • شاد
  • ہوتا
  • اک
  • جہاں
  • دیکھا

آب زمزم کے فضائل اور فوائد بے شمار ہیں اور جدید تحقیقات سے اس کی خصوصیات کے بارے میں جو انکشافات ہوئے ہیں انہیں جان کر آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ یوٹیوب یا گوگل پر آب زمزم یا صرف زمزم لکھ کر سرچ کریں اور قدرت الٰہی کے اس شہکار کرشمے کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کرکے ایمان تازہ کریں۔ ان تفاصیل کو جان کر آپ کو یقین ہو جائے گا کہ اس مبارک پانی کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں ہے۔

موقع کی مناسبت سے یہاں قارئین کے لئے ایک دلچسپ علمی بحث پیش ہے۔

ایک زمانے میں یہ بحث چل رہی تھی کہ کائنات میں پائے جانے والے پانیوں میں سب سے افضل پانی کونسا ہے؟ کچھ علماء نے کہا حوض کوثر کا پانی، کیونکہ حوض کوثر جان دو عالم ﷺ پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے جس کا ذکر سورۂ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر فرمایا ہے، اس لئے اس کا پانی سب پانیوں سے افضل ہے؛ جبکہ بعض علماء نے آب زمزم کو افضل قرار دیا کیونکہ جب جان دو عالمﷺ کا سینہ مبارک چاک کرکے آپ کے قلب انور کو دھویا گیا تھا تو صحیح مسلم کی روایت کے مطابق اس کے لئے آب زمزم استعمال کیا گیا تھا۔ دھونے والے ملائکہ تھے اور آب کوثر و آب زمزم دونوں ان کی دسترس میں تھے، اس کے باوجود انہوں نے آب زمزم کو ترجیح دی تو معلوم ہوا کہ آب زمزم افضل ہے۔ ایک صاحب دل عالم دین نے اس بحث کا یہ دلچسپ تصفیہ فرمایا کہ سارے پانیوں میں افضل نہ کوثر کا پانی ہے، نہ زمزم کا پانی؛ بلکہ پوری کائنات میں پائے جانے والے پانیوں میں سب سے افضل، سب سے اعلیٰ اور سب سے برتر وہ پانی ہے جو جان دو عالمﷺ کی مبارک انگلیوں سے پھوٹا اور ہزاروں لوگوں کو سیراب کرگیا۔

واقعی، اس سے افضل پانی بھلا کونسا ہوسکتا ہے----! کتنے خوش نصیب لوگ تھے جو اس سے سیراب و لطف اندوز ہوتے تھے۔ اعلیٰ حضرتؒ فرماتے ہیں

  • انگلیاں
  • ہیں
  • فیض
  • پر
  • ،
  • ٹوٹے
  • ہیں
  • پیاسے
  • جھوم
  • کر
  • ندیاں
  • پنجاب
  • رحمت
  • کی
  • ہیں
  • جاری،
  •  واہ
  • واہ!

جان دو عالمﷺ نے فرمایا ----’’آب زمزم پیتے وقت جو مراد بھی ذہن میں رکھی جائے وہ پوری ہوجاتی ہے۔‘‘(14) بیماری سے شفا، رزق کی وسعت، قرض سے نجات، غرضیکہ آب زمزم ہر مسئلے کا حل ہے۔ اس لئے اس کو بار بار اور زیادہ مقدار میں پینا چاہئے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لئے ’’پی‘‘ کا لفظ مکرر لایا گیا ہے---- ’’جسے پی ، پی کے۔‘‘

یہ پانی نہ صرف یہ کہ وہاں کثرت سے پیاجاتا ہے؛ بلکہ پوری دنیا میں پہنچتا ہے اور ایک جہاں اس کو پی پی کر سیراب و شاداب ہوتا ہے۔

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~

(۱۰)

  • سجا
  • کر
  • اپنے
  • ہونٹوں
  • کو
  • دعاؤں،
  • التجاؤں
  • سے
  • صفا
  • ،
  • مروہ
  • میں
  • لوگوں
  • کو
  • رواں
  • دیکھا،
  • دواں
  • دیکھا

حج اور عمرے دونوں میں سعی کرنا ضروری ہے۔ ’’سعی‘‘ صفا اور مروہ کے درمیان دھیمی رفتار سے دوڑنے کو کہتے ہیں۔ ایک جگہ نسبتاً تیز دوڑنا پڑتا ہے---- مروہ کی طرف جاتے ہوئے بھی اور صفا کی جانب واپس آتے ہوئے بھی۔

یہ سعی ام اسمٰعیل کی زندگی کے ان لمحوں کی یادگار ہے، جب اس کا ننھا سا جگر پارہ ایک جھاڑی کے زیر سایہ پڑا پیاس سے بلک رہا تھا اور وہ خود پانی کی تلاش میں کبھی صفا پر چڑھ کر اِدھر اُدھر نظر دوڑاتی تھی اور کبھی مروہ پر چڑھ کر۔ اس دوران وہ مسلسل اپنے بیٹے پر بھی نظر رکھے ہوئے تھی تاکہ کوئی درندہ وغیرہ اس کو نقصان نہ پہنچا دے۔ صفا اور مروہ کے درمیان ایک جگہ نشیبی تھی، وہاں پہنچ کر بیٹا نظروں سے اوجھل ہوجاتا تھا تو وہ بے تاب ہوکر مزید تیز دوڑنے لگتی تھی۔ اسی پریشانی اور بے قراری کے عالم میں اس ضعیفہ نے سات چکر لگا ڈالے ---- مامتا کے ہاتھوں مجبور ماں کا یوں مارا مارا پھرنا، اس صمد و بے نیاز رب کو اس قدر بھایا کہ اس نے امت مسلمہ کے ہر اس فرد کے لئے جو حج یا عمرے کے لئے جائے، یہ لازم کر دیا کہ وہ بھی اسی انداز میں ان پہاڑیوں کے درمیان دوڑے۔

حضرت ہاجر کی اس ادا کو ہوبہو دہرانے کا اللہ تعالیٰ نے اس قدر اہتمام فرمایا کہ جہاں حضرت ہاجر بیٹے کے اوجھل ہو جانے کی وجہ سے تیز دوڑی تھیں، وہاں سعی کرنے والے کے لئے بھی تیز دوڑنا ضروری قرار دے دیا۔

یوں تو صفا مروہ بھی مکہ کی عام پہاڑیوں کی طرح دو پہا ڑیاں ہی ہیں مگر جب ان پر اللہ کی مقبول بندی حضرت ہاجر کے قدم لگے تو ان کا مقام اتنا بلند ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی نشانیاں قرار دے دیا اور فرمایا اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَہَّ مِنْ شَعَائِرِ ا للہ (15) (صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں)

اپنے لبوں کو دعاؤں، التجاؤں سے آراستہ کرکے اللہ کی ان نشانیوں کے درمیان لوگ کہیں چل رہے ہوتے ہیں اور کہیں دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ چلنے والوں کو فارسی میں ’’رواں‘‘ اور دوڑنے والوں کو ’’دواں‘‘کہا جاتا ہے۔ عام طور پر تو رواں دواں ساتھ ہی بولے جاتے ہیں مگر سعی کے دوران کچھ لوگ صرف ’’رواں‘‘ ہوتے ہیں اور کچھ صرف ’’دواں‘‘ اس لئے رواں اور دواں کو جدا کرکے استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی ---- رواں دیکھا، دواں دیکھا۔

(۱۱)

  • کوئی
  • ہو
  • نیک
  • بندہ،
  • یا
  • ہو
  • دائمؔ
  • سا
  • بڑا
  • عاصی
  • تنا
  • سر
  • پر
  • سبھی
  • کے
  • رحمتوں
  • کا
  • سائباں
  • دیکھا

ارشاد ربانی ہے مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا (16) یعنی جو حرم میں داخل ہوگیا اس کو امان مل گئی۔ اس میں نیک و بد کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ جو بھی حرم میں داخل ہوگیا،خواہ نیک ہو یا بد، اچھا ہو یا برا، مطیع و فرمانبردار ہو یا عاصی و گنہگار، سب کو امن و امان کا مژدہ ہے۔   

کس چیز سے امان ---- ؟ دنیا کے دکھوں سے، نزع کی مشکلوں سے، قبر کی پریشانیوں سے اور حشر کی ہولناکیوں سے ---- غرضیکہ ہر مصیبت سے امان کا وعدہ ہے۔

اس لئے خواہ کوئی پرہیز گار و نیکو کار ہو، یا دائمؔ جیسا خطا کار و گنہگار ہو، سب کے سروں پر رحمت کا ایسا سائباں تنا ہو تا ہے جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں سارے ہی مسرور و آسودہ ہو جاتے ہیں۔

یہی بات علامہ اقبال نے یوں بیان فرمائی ہے

  • نہ
  •  کہیں
  • جہاں
  • میں
  • اماں
  • ملی،
  •  جو
  • اماں
  • ملی
  • تو
  • کہاں
  • ملی؟
  • مرے
  • جرم
  • خانہ
  • خراب
  • کو
  • تیرے
  • عفو
  • بندہ
  • نواز
  • میں

موقع کی مناسبت سے اگر ’’عفو‘‘ کی جگہ ’’شہر‘‘ پڑھیں تو زیادہ مزا آئے گا۔ یعنی

  • مرے
  • جرم
  • خانہ
  • خراب
  • کو
  • تیرے
  • شہر
  • بندہ
  • نواز
  • میں

اللہ تعالیٰ سب کو اس شہر بندہ نواز میں تنے رحمتوں کے سائباں تلے بیٹھنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین۔

❀ ❀ ❀

آخر میں اعلٰی حضرت مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔ اسے پڑھئے، سمجھئے اور مصطفٰی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام بھیجئے، جن کے وسیلے سے یہ سب نعمتیں ملی ہیں۔ وہ اگر نہ ہوتے تو خلیل اللہؑ کہاں ہوتے، کعبہ کی تعمیر و بنا کیسے ہوتی اور منیٰ میں رونقیں کیونکر لگتیں!!! 

  • ہوتے
  • کہاں
  • خلیل
  • و
  • بنا
  • کعبہ
  • و
  • مِنٰی
  • لَوْلَاک
  • والےؐ!
  • صاحبی
  • سب
  • تیرے
  • گھر
  • کی
  • ہے

بلاشبہ یہ ساری صاحبی اور بادشاہی لولاک والے آقاﷺ کے گھر کی ہے اور انہی کے وجود مسعود کا فیضان ہے۔

  • مَولَایَ
  • صَلِّ
  • وَسَلِّمْ
  • دَائِمًا
  • اَبَدًا
  • عَلٰی
  • حَبِیْبِکَ
  • خَیْرِ
  • الْخَلْقِ
  • کُلِّھِمٖ

دعا گو، دعا جو
قاضی عبد الدائم دائمؔ

~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~.~~.~.~.~.~.~.~

حوالہ جات کی تخریج و تلاش

از: علامہ ماجد محمود نقشبندی

  1. سورۃ الحج، آیت نمبر: ۲٧
  2. تفسیر ابن کثیر مترجم جلد: ٣، ص: ٣٧٤ - مطبوعہ ضیاءالقرآن پبلی کیشز - لاہور
  3. الاذکار المنتخبہ للنووی، صفحہ:۳۲۵
  4. فضائل حج از مولانا زکریا کاندھلوی ص: ۲٦ - مطبوعہ مکتبۃ البشرٰی، کراچی
  5. حوالہ مذکورہ
  6. سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۲۹٤٤، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ، لاہور
  7. 1.  نعمۃ الباری شرح صحیح البخاری از علامہ غلام رسول سعیدی، جلد: ٣، ص: ۸٧۲، بحولہ المعجم الاوسط، رقم الحدیث: ٥٦٧
    2.  ”حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کیسے ادا فرمایا“، از مفتی محمد خان قادری، ص: ٦۰، بحوالہ الکامل لابن عدی
  8. ترمذی، رقم الحدیث: ۸٧٧
  9. صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۲۲۷۷
  10.  مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح از ملا علی قاری، جلد: ٥، ص: ١۹٥، مطبوعہ: مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ
  11. شرح الامالی لعلی القاری، صفحہ: ۹۶
  12. سنن ابی داؤد جلد: ١، رقم الحدیث: ۲۰۲۸، مطبوعہ: مکتبہ رحمانیہ، لاہور
  13. 1.صحیح البخاری، رقم الحدیث: ٤٤۸٣
    2.  تاریخ الخلفاء از امام جلال الدین سیوطی،( مترجم)، صفحہ:۲۸٧، مطبوعہ پروگریسو بکس، لاہور
  14. سنن ابن ماجہ رقم الحدیث: ٣۰٦۲، مطبوعہ: مکتبہ رحمانیہ، لاہور
  15. سورۃ البقرہ، آیت نمبر: ١٥۸
  16. سورہ آل عمران، آیت نمبر: ۹٧