جامع مسجد صدریہ

اس ذیشان مسجد کی بنیاد حضرت معظمؒ نے اس وقت رکھی جب آپ درویش سے یہاں منتقل ہوئے۔ حضرت معظمؒ کو مساجد کے ساتھ پیدائشی طور پر بہت محبت تھی۔ خواجہ محمد خان مرحوم(رئیسِ درویش)کہا کرتے تھے کہ ہم حضرت معظمؒ کے ہم عمر تھے۔ بچے تھے، کھیلنے کے لئے نکلتے تو قاضی صاحبؒ ہمیں کسی نہ کسی مسجد میں لے جاتے۔ پھر وہاں کافی دیر تک اس کے درو دیوار میں کھوئے رہتے۔ حضرت اعلیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے خود جاکر خان صاحب مرحوم سے اس بات کی تصدیق کی۔

تعمیر مسجد کے سلسلے میں حضرت اعلیٰ اس بات پر اکثر حیرت کا اظہار فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں قبلہ کی سمت متعین کرنے کے کوئی خاص آلات نہ تھے، نہ آجکل کی طرح جدید فارمولے تھے، اس کے باوجود حضرت معظمؒ نے جوسمت متعین فرمائی، وہ جدید ترین آلات کے مطابق بھی درست ہے۔

سرکاری مساجد پر خرچ کرنا آسان ہے، لیکن نجی مساجد پر اتنی رقم لگانا حضرت معظمؒ اور حضرت اعلیٰ کے کمالِ ذوق کی نشاندہی کرتا ہے۔

محراب پر کام جاری تھا۔ حضرت معظمؒ تشریف لائے۔ مستری فیض صاحب سے فرمایا، وہ رنگ استعمال نہ کرنا جو بعد میں پھیکا پڑ جائے۔ انہوں نے عرض کی، سنہری رنگ بعد میں سیاہ پڑ جاتا ہے۔ فرمایا، اسے چھوڑ دو۔ مستری صاحب آپؒ کے ذوق سے آشنا تھے، عرض کی، حضور! خوبصورتی میں فرق رہ جائے گا۔ فرمایا، پھر اس کا کیا حل ہو؟ انہوں نے عرض کی، اس کا ایک ہی حل ہے کہ یہاں خالص سونا چڑھادیا جائے۔ آپؒ نے دیر نہیں فرمائی۔ اسی وقت دولت کدہ پر تشریف لائے۔ گھریلو خواتین سے بات کی اور ان کے زیورات اٹھا کر مستری صاحب کے حوالے کر دئیے۔ چنانچہ محراب کے بالائی گل بوٹوں پر سونے کی پتریاں چڑھائی گئیں، جو ساٹھ، ستر برس گزرنے کے باوجود اُسی آب وتاب کے ساتھ اللہ کے گھر کی زیبائش بنی ہوئی ہیں۔

گھر کے زیور کر دئیے محراب مسجد پر نثار

بَارَکَ اللہ جذبۂ ایثارِ صدر الاولیاء

ان خواتین مرحومات نے بھی حضرت معظمؒ کے ساتھ وقت گزارا تھا، اس لئے بخوشی زیورات قربان کر دئیے، ورنہ عام خواتین تو ایک رتی سونا دینے کے لئے تیار نہیں ہوتیں۔
کسی نے اعتراض کیا، آپ اتنا پیسہ مسجد پر لگا رہے ہیں، کیا یہ اسراف نہیں؟ فرمایا، یہ اعتراض پرانا ہے۔ سیدنا عثمان غنی ؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع کرائی جس کے لئے ساگوان کی لکڑی ملک شام سے منگوائی۔ ایک تو ساگوان کی لکڑی بہت مہنگی تھی، دوسرا شام سے لانا۔ ذرائع نقل و حمل بھی آج کل کی طرح نہ تھے۔ کسی نے اعتراض کیا، امیر المؤمنین! آپ اسراف کر رہے ہیں۔ فرمایا، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ رقم میں اپنی جیب سے خر چ کر رہا ہوں، بیت المال سے نہیں۔ دوسری یہ کہ میں نے خود رسول اللہﷺ سے سنا ہے، مَنْ بَنٰی اللہ مَسْجِدا بَنٰی اللہ لَہ مِثْلَہ بَیْتًافِیْ الْجَنَّۃ( جو اللہ کی رضا کے لئے مسجد بناتا ہے، اللہ اس کے لئے اسی جیسا جنت میں گھر بناتا ہے۔) میں یہ چاہتا ہوں اللہ کا گھر اپنی طاقت کے مطابق حسین ترین بناؤں تاکہ اللہ تعالیٰ جنت میں میرا گھر اپنی شان و سعت کے مطابق خوبصورت بنائے۔

حضرت معظمؒ کا یہ ذوق حضرت اعلیٰ کو ورثہ میں منتقل ہؤا۔ ان کے وصال کے بعد آپ نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ مسجد کا کام تقریباً سارا سال لگا رہتا ہے۔ مختلف اوقات میں متعدد مستری صاحبان نے یہ سعادت حاصل کی ہے۔ آج کل مستری عبداللطیف صاحب (کوٹ پنڈی داس والے) اور شرافت صاحب (نارو وال والے) میناروں پر کام کر رہے ہیں۔

مسجد کی تین اطراف میں وسیع برآمدے ہیں۔ ان پر قصیدہ بردہ شریف کے اشعار مع ترجمہ درج ہیں۔ مسجد کے صرف فرنٹ پر آج سے آٹھ دس سال پہلے تقریباً آٹھ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ فرنٹ کو آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ، بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی کے عکس اور بہترین ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ بیت اللہ شریف کے عکس میں صفوں کی درست پیمائش کے لئے عصمت صاحب ریاض سے حرمین شریفین آئے۔ اُسی کے مطابق صفوں وغیرہ میں ایکوریٹ (Accurate) فاصلے رکھے گئے۔ بیت اللہ شریف کے عکس پر یہ آیت درج ہے، فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتo چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔

مسجد نبوی کے عکس پر گناہگارانِ امت کے لئے یہ مژدۂ جانفزا لکھا ہے، مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہ شَفَاعَتِیْ،جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔

 صاحبزادہ عابد الدائم عابدؔ صاحب نے کیا خوب کہا ہے

اب تو چہرے پہ عابدؔ نکھار آگیاپڑھ کے مَنْ زَارَ قَبْرِیْ قرار آگیا

اب شفاعت ہماری بھی ہو جائے گی ہم بھی آنکھوں میں روضہ بسانے چلے

فرنٹ کا یہ سارا کام مستری صابر صاحب کے ہاتھوں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔

مسجد کا وسیع تہہ خانہ ہے جس میں بچے قرآن بھی پڑھتے ہیں عرس معظمؒ کے موقع پر مہمان حضرات بھی وہاں قیام کرتے ہیں۔ رمضان میں معتکف حضرات دور دور سے اعتکاف بیٹھنے کے لئے آتے ہیں، وہ بھی اسی تہہ خانہ میں قیام پذیر ہوتے ہیں۔ دوران اعتکاف وہ قیام اللیل میں علیحدہ قرآن مجید سنتے ہیں اور ہر روز دن 11:30 بجے انہیں مختلف موضوعات پر حضرت اعلیٰ خطاب فرماتے ہیں۔ کبھی عشرہ مبشرہ کے حالات پر، کبھی قرآن مجید کی آخری دس سورتوں کی تفسیر، کبھی مشائخ نقشبند علیہم الرضوان کے حالات زندگی کے موضوع پر ---- غرضیکہ ہر سال نوع بنوع موضوعات پر آپ خطاب فرماتے ہیں۔ ان خطابات کی تدوین و ترتیب جاری ہے جو عنقریب انشاء اللہ دائمی دروس اعتکاف کے نام سے شائع ہوں گے۔

حضرت معظمؒ کے زمانہ مبارک میں کوئٹہ، ملتان اور دوردراز سے حافظ حضرات تشریف لاکر نماز تراویح میں قرآن مجید سناتے تھے۔ آپؒ کے زمانہ مبارک ہی میں حضرت اعلیٰ نے قرآن مجید حفظ کیا اور کئی سال تک نماز تراویح میں سنایا۔ قاضی عابدالدائم عابدؔ صاحب فارغ التحصیل ہوکر تشریف لائے تو حضرت اعلیٰ نے یہ خدمت ان کے سپرد فرما دی اور خود صبح کی نماز میں باقاعدہ قرآن مجید پڑھنا شروع فرمایا۔ آٹھ نو ماہ میں یہ دورانیہ مکمل ہوتا ہے، اور بڑا اہتمام ہوتا ہے ختم قرآن کے اس عظیم موقع پر۔ نماز صبح کے بعد محفل ہوتی ہے اور نماز اشراق کے بعد لنگر کی طرف سے تمام نمازیوں اور حاضرین کو پر تکلف ناشتہ پیش کیا جاتا ہے۔

 

 

خانقاہِ صدریہ
دربار صدرالاولیاء مدرسہ ربانیہ نشست گاہ مہمان خانہ مسجد